ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت – سحر امداد شاہ
ڈاکٹر سحر امداد شاہ
فروری تیرہ تاریخ ، ویلنٹاین ڈے فیض احمد فیض کی سالگرہ کا دن ہے ویلنٹاین سے ٹھیک ایک دن پہلے – تو گویا اگر وہ کچھ گھڑیاں مزید رک جاتے تو عین ممکن ہے ان کی ولادت اسی دن ٹھہرتی – پر وہ کسی دن بھی پیدا ہوئے ہوں، ایک شاعر کی طرح ان کا مزاج عاشقانہ ہے – کہ یہی ان کے ستارے بھی بتاتے ہیں -بلکہ اس قدر عاشقانہ ہے کہ انہوں نے ببانگِ دہل “دو عشق” کئے- اور ان عشقوں کو نظم بھی کیا:
اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
اس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگِ حنا کی
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
اس راہ پہ پھیلے گی شفق تیری قبا کی
◊
چاہا ہے اُسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ایک عشق میں پانے کی آرزو اور ایک عشق میں گنوانے کی خواہش – اور فیض احمد فیض تو عشاق کے قافلے کے سالاروں میں تھے- اور انہوں نے تو تمام عمر بس یہی کام کیا:
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
کیا خوبصورت مصروفیت تراشی – اور پھر نادم بھی نہیں ہیں – نہ اِس عشق پر؛ نہ اُس عشق پر:
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
فیض احمد فیض کی “عشق” کی تہیں کس طرح تہہ در تہہ ہم پر کھلتی ہیں، جب فیض “دستِ تہہ سنگ” میں فرماتے ہیں: “جیل خانہ عشق کی طرح خود ایک بنیادی تجربہ ہے…” اور وہ اسے ابتدائے شباب کی طرح تمام حسیات (sensations) کے تیز ہونے کا سبب گردانتے ہیں-
فیض احد فیض ۹ مارچ ۱۹۵۱ کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے (ان کے ساتھ جنرل اکبر خان، برگیڈیئر صادق خان، کرنل ضیاء الدین، کرنل نیاز محمد ارباب )جو کے ضیاء الحق کے دور میں وزیر بھی بنے(، میجر محمد اسحاق، میجر حسن خان، کیپٹن ظفراللہ پوشنی، کیپٹن خضر حیات، جنرل نذیر احمد، ایئر کموڈور جنجوعہ، برگیڈیئر لطیف خان اور سجاد ظہیر شامل تھے-) اور اپریل ۱۹۵۵ میں وہ حیدرآباد سے لاہور منتقل ہوئے- اس واقعے کے بارے میں فیض کے قریبی دوست ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں:
وہ پہلے تین مہینے سرگودھا اور لائل پور میں قید رہے اور جون ۱۹۵۱ میں وہ حیدرآباد سنٹرل جیل منتقل ہوئے- جہاں جیل میں ہی قائم اسپیشل ٹربیونل نے راولپنڈی سازش کیس کی کاروائی چلائی – یہ تمام کاروائی خفیہ تھی – مگر میجر محمد اسحاق جو جیل میں “مرزا سودا کے غنچے کی طرح فیض صاحب کی بیاض برداری کا کام” (زنداں نامہ – ص: ۱۷) کرتے تھے، نے “رودادِ قفس” میں بہت سی باتیں قلمبند کی ہیں – مگر پھر بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے – اور بہت سی باتیں کھل کر نہیں کہیں گئیں –
سوان کا جیل خانے کا یہ تجربہ ان کی تمام حسیات کو کچھ ذیادہ ہی جگا گیا – اور یوں ان کی شاعری کا اپنے دور کے ساتھ relevance کا ایک رشتہ بنا گیا اور یوں لگا کہ ایک بار پھر منصور سرِ دار آیا – اور کس جولان و جذبے سے آیا کہ محض: “تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں” اسی لئے “خوں بداماں چلو” – “جنونِ عشق” بھی کیا عجیب کیفیت ہے کہ
سر دھڑ کی بازی لگی ہے اور تمام عشاق مارچنگ دھن پہ مست و رقصاں آگے ہی آگے چل رہے ہیں – کسقدر بیساختگی اور مستی کی کیفیت ہے اس نظم میں:
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
حاکم شہر بھی، مجمع عام بھی
تیر الزام بھی، سنگ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی، روز ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
[لاہور جیل، ۱۱ فروری ۱۹۵۹ – دستِ تہہ سنگ]
ہے نہ یہ حیرت انگیز بات کہ فیض کا اور میرا رشتہ جیل کا رشتہ ہے – وہ جس سال حیدرآباد سنٹرل جیل میں قید کئے گئے – میں اسی سال رحمِ مادر سے آزاد ہوئی – اور جب میں نے بولنا سیکھا – تو میرے بابا نے مجھے نرسری رائمز نہیں بلکہ فیض احمد فیض کی “دستِ صبا” کے بہت سے انقلابی اشعار یاد کرائے – جن میں میرا پسندیدہ یہ خوبصورت با معنی قطع بھی شامل تھا:
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
ک خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھدی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے
ہم اس وقت ان کی معنی و مفہوم سے تو قطعاً نا بلد تھے – مگر ہم اپنے ابّا جان کی فرمائش پر یہ اشعار تتلا کر اور لمبی سانسیں لے کر ان کے دوستوں کو سنایا کرتے تھے – اور وہ اس پر حیران ہوا کرتے کہ اتنی سی بچی کو یہ اشعار یاد کیسے ہوئے!
اور یوں ہم اپنے بچپن ہی سے فیض کی شاعری کے عشق میں مبتلا ہوگئے – اور ہمیں یاد ہے کہ فیض احمد فیض کی “دستِ صبا” ہمارے گھر میں اس اونچے طاقچے پہ رکھی جاتی تھی کہ جہاں امّی نے ریشمی رومال میں لپیٹ کر قرآن شریف رکھا تھا – مجھے یاد ہے میں فیض سے ملنے کے لئے اس قدر اتاولی تھی کہ ایک بار بابا کو ایک ایسے فنکشن کی دعوت ملی جس کی صدارت فیض کو کرنی تھی – اور میں بہت زیادہ ضد کرکے “اورینٹ ہوٹل” حیدراباد کے اس فنکشن میں گئی تھی – مگر میری امیدوں پر اوس پڑ گئی جب اعلان ہوا کہ فیض نہیں آرہے – انہوں نے اپنا صدارتی خطبہ بھیج دیا ہے – میرا موڈ خراب ہوگیا کہ میں آئی کیوں؟ اور میں نے گھر واپسی کی رٹ لگادی کہ کمیونسٹوں کے اس فنکشن میں میرا دم گھٹ رہا تھا – اور فنکشن میں جانے کا نقصان مجھے کئی سالوں تک بھگتنا پڑا پر جلد ہی میری امید بر آئی – ہماری مس کاظمی نے ابنِ رشد گرلز کالج کی ایک شام فیض کے نام کی تھی – اور جن بچیوں کو اسٹیج پر فیض سے سوال کرنے کی اجازت ملی، میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل تھی – میں نے ادبی حوالے سے بڑے جامع سوال کئے – اور مجھے یاد ہے کہ فیض حیرت سے مجھے تک رہے تھے – اسی رات وہاں کل پاکستان مشاعرہ تھا، ہم نے وہ مشاعرہ بھی سنا – اور یوں فیض کو سننے ، دیکھنے اور ملنے کی دیرینہ آرزو پوری ہوئی –
ہم نے تو فقط فیض کے ان اشعار کو یاد کیا تھا – جو کہ اس بے بہا شاعر نے پسِ زنداں نہ جانے کس کرب سے گزر کر لکھے تھے – ہمیں تب اس بات کا شعور بھی نہیں تھا کہ ان جیسے شاعر کیلئے قیدِ تنہائی کے وہ دن کسقدر کٹھن رہے ہونگے – جب ایک شاعر کیلئے کاغذ، قلم، دوات، کتابیں، اخبار اور خطوط ممنوع قرار دیئے جا چکے ہوں – تب وہ کیسے جی پائے گا! تب شاعری ہی ان کے جینے کا واحد سہارا بنی تھی – اور یوں ایک شاعر کی یادداشت ہی اس کی سب سے بڑی دولت بن گئی – کہ شاعر کے تمامتر افکار، خیال، اور تصورات کا خزانہ اسی یاد داشت میں محفوظ رہا – سجاد ظہیر لکھتے ہیں:
“تین مہینے میں کہا ہوا کلام در اصل لوحِ دل پر ہی لکھا ہوا تھا” [متاعِ لوح و قلم – ص : ۲۹۶]
اسی صفحے پر سجاد ظہیر اس “اسپیشل ٹربیونل” کا بھی ذکر کرتے ہیں – جس کی کاروائی سنتٹرل جیل حیدرآباد میں چلا کرتی تھی – جہاں انہوں نے سینکڑوں جھوٹی گواہیاں سنیں – جو کہ بقول ان کے: “ایک نہایت بورنگ کام تھا – ” لہٰذا بنّے میاں اور فیض پاس پاس بیٹھَے سرگوشیاں کرتے رہتے اور سامنے پڑی کاپی پر کارٹون بناتے رہتے تھے – اور جھوٹی گواہیوں پر بے ساختہ ہنس دیتے تھے – جس پرجسٹس عبد الرحمان غصے سے لال پیلے ہوجاتے تھے –
ہنسی مذاق کے لمحوں، ہر پند رھواڑے مختصر مشاعروں، پھولوں کی پنیریاں لگانے اور ایسی بہت سی خودساختہ خوشیوں اور دکھ کے لمحوں میں ابھرتے ان بہادرانہ قہقہوں نے چار سال سے کچھ اوپر قید کا یہ عرصہ کچھ ہلکا کیا – وگرنہ جیل کہ یہ طویل سال گذارنا کچھ آسان نہیں تھا – مگر ہمارے ہاں تو جیل سے باہر کی زندگی بھی کچھ اتنی آسان نہیں تھی بلکہ وہ زندگی تو کسی بڑے جیل میں گزارنے کے مترادف ہے – اور فیض نے اس بہت مشکل زندگی کو سہل بنانا کس قدر آسان کردیا:
سہل یوں راہ زندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کے ہے
فیض احمد فیض کے تصور کی بالیدگی نے خونِ جگر کو “غازہِ رخسارِ سحر” بنایا – فیض نے اپنے لفظیات کے جادو سے خوبصورت صبحوں اور رنگین شاموں کو تراشا – جذبات کی گرمی سے زنجیروں کو پگھلایا، تخت گرائے، تاج اچھالے اور نئی اور انوکھی منزل کے خواب بُنے، اور ایسے ہی خوبصورت خواب دیکھنے کا سلیقہ ہمیں سکھایا – یوں فیض کے ترانے ہمارے ترانے بن گئے:
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے ،منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
یہ کونسی منزل ہے جہاں پر ڈیرے ڈالنے کے خواب شاعر دیکھتا ہے اور ہمیں بھی دکھاتا ہے! اور کیا وہ منزل آئی بھی؟
منزل آئے کہ نہ آئے مگر فیض کے اعلیٰ آدرش، بلند عزم اور ارادے کی پختنگی اور لگن نمایاں نظر آتی ہے – فیض
کے اس دور کے کلام میں:
قید و بند کی زندگی نے فیض پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ ان کیفیات سے بار بار گزرتے ہیں – ان کے اشعار میں ایک روشن امید کا عکس جھلکتا ہے:
صبا نے پھر زنداں پہ آکے دستک دی
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
فیض کی شاعری میں رجائیت کا رنگ خوب رچا ہے – وہ ایک امید پرست شاعر ہیں – اور انہوں نے نسلِ نو کو ایک نئی صبح کا خواب دکھلایا ہے –
فیض نے ۱۹۳۴ میں کالج سے فراغت پائی اور ۱۹۳۵ میں MAO کالج امرتسر میں لیکچرار بنے – یوں انہوں نے تعلیم و تدریس، فوج، صحافت، ٹریڈ یونین میں وقت گزارا اور پھر چار سال سے زیادہ جیل یاترا میں گذارے – اس کے بعد بھی انہوں نے کئی ایک ملازمتیں کیں اور غمِ روز گار میں الجھے رہے – کراچی میں ہاروں کالج کے پرنسپل رہے – ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں کئی اہم عہدوں پر رہے – ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان میں رہنا مشکل ہوگیا، تو یاسر عرفات کے کہنے پرافرو ایشیائی جرنل “Lotus” کی ادارت سنبھالی اور بیروت چلے گئے – جہاں “Lotus” کے بیحد شاندار پرچے نکالے – مگر شاعری سے ان کا ناتہ کبھی نہیں ٹوٹا – وہ زندگی کے آخری لمحے تک لکھتے رہے – احمد سلیم کے بیحد اصرار پر انہوں نے پنجابی میں بھی شاعری کی –
فیض احمد فیض کی اگست ۱۹۴۷ میں لکھی گئی نظم “صبح آزادی” میں فیض کی تخلیقی صلاحیت اپنے پوری عروج پہ ہے – اس نظم کی رمزیت بے مثال ہے – اور یہاں اگر میں یہ کہیوں کہ ایک سچے اور genuine شاعر کی “پروفیسی” کو نہیں ٹالا جاسکتا – نہ ہی اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے – اس نظم سے پہلے اس نظم کے حوالے سے فیض کے قریبی دوست ڈاکٹر آفتاب احمد کی کتاب “فیض احمد فیض – شاعر اور شخص” میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے – پہلے وہ واقعہ سنئے:
اس نظم میں فیض کے لفظی مرکبات “داغ داغ اجالا”، “شب گزیدہ سحر” اور “فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل” میں فیض نے تخلیقی صلاحیت کی ان بلندیوں کو چھوا ہے کہ شاعر جس کا خواب دیکھتے ہیں – اس نظم کی رمزیت اور اشاریت بے مثال ہے – آئیے اس نظم کے کچھ مصرعے سنیں:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
جگر کی آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
فیض کی شاعری میں ایک نیا اور یگانہ احساس ہمیں ملے گا – خود ان کا زاویئہِ نظر بھی مختلف اور منفرد ہے – یہ نظم گو کہ یاس و نا امیدی کی مظہر ہے – مگر اس نظم کا اختتام جہد و عمل و امید پر ہوتا ہے – ہماری ذہنی نشو و نما میں فیض کی شاعری کا یقیناً اثر رہا –
فیض احمد فیض کا مکمل مجموعہ کلام “نسخہ ہائے وفا” مارچ ۱۹۸۴ میں ان کی وفات سے آٹھ مہینے پہلے شایع ہوا – جس میں ان کی آخری عمر کا کلام “غبارِ ایام” کے عنوان سے شامل کیا گیا – اس میں ان کی پہلی نظم “تم ہی کہو کیا کرنا ہے” خود احتسابی کی کیفیت سے مزین ہے – زندگی کے اس طویل سفر میں “ناؤ” تھپیڑے سہتی زندگی کی علامت ہے – فیض نے اس نظم میں زندگی کے سفر کے دوران “ان جان مانجھیوں” اور “بے پرکھی پتواروں” جیسے علائم کے ذریعے زندگی کے نہ بھر پانے والے “گھاؤ” نشانبر کئے ہیں – اس نظم میں انہوں نے مشکل فارسی لفظیات، مرکبات اور اپنی پسندیدہ فارسی اصطلاحات کا سہارا نہیں لیا – عام سی سادہ سی زبان میں لکھی یہ نظم ایک نئی جہت کی نشاندہی کرتی ہے اور ہمیں ایک نئے فیض سے ملاتی ہے جو اپنی جڑ سے جڑنا چاہتا ہے، اپنے اصل سے ملنا چاہتا ہے –
فیض نے رنگین بزم آرائیاں بھی دیکھیں، قید و بند کی صعوبتیں بھی سہیں اور خود ساختہ جلاوطنی کی کٹھنائیاں بھی سہیں – یوں ان کی زندگی ہر دم ایک ہنگامے پہ موقوف رہی – ان کی نظموں کا دلگداز احساس، ان کا اپنے زمانے کا فہم و ادراک، ان کی شاعری میں اپنے دور کی حقیقتوں اور خوابوں کی جھلکیاں اور تیسری دنیا سے ان کے گہرے ربط و تعلق نے ان کی شاعری کو بین الاقوامی جہت عطا کی اور وہ اپنے دور کی پہچان بن گئے :
بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے
متاع درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے
ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے
کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف
کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم کیا ہے
لحاظ میں کوئی کچھ دُور ساتھ چلتا ہے
وگرنہ دہر میں اب خضر کا بھرم کیا ہے
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے
سجاؤ بزم، غزل گاؤ، جام تازہ کرو
بہت سہی غم گیتی، شراب کم کیا ہے
[نومبر، ۱۹۸۴ – غبارِ ایام]
فیض احمد فیض اپنی زندگی کے آخری ایام “بیش و کم و ستم” کے حساب کتاب میں ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے – وہ جاتے جاتے بھی بزم سجانے، غزل گانے اور جام تازہ کرنے کی خواہش کرکے زندگی کو اسی گرمجوشی سے الوداع کرنا چاہتے ہیں – وہ خوبصورت زندگی جس کے انہوں نے خواب بُنے – وہ انت میں اسے ہی دیکھنا چاہتے ہیں:
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
کھلی آنکھوں سے جو خوبصورت خواب فیض نے دیکھے، وہ سارے خواب ہمارے بھی ہیں!
♥
ڈاکٹر سحر امداد شاہ